افتخار شاہد ۔۔۔ دو غزلیں (ماہنامہ بیاض لاہور اکتوبر 2023 )

ہم لوگ ندیدے ہیں شجر کاٹ رہے ہیں
جو صابر و شاکر ہیں ثمر کاٹ رہے ہیں

یوں دوسری چاہت کا ارادہ تو نہیں تھا
ہم پہلی محبت کا اثر کاٹ رہے ہیں

ہم کیسے بتائیں کہ ترے ہجر کا عرصہ
کٹتا بھی نہیں ہم سے مگر کاٹ رہے ہیں

پہلے تو یہ در بھی اسی دیوار سے نکلے
اب یوں ہے کہ دیوار کو در کاٹ رہے ہیں

اے کاش کوئی آ کے ہمیں یہ تو بتائے
ہم ڈوب رہے ہیں کہ بھنور کاٹ رہے ہیں

اک عمر سے ہم لوگ شجر کاٹ رہے تھے
اب ہم کو کئی دن سے شجر کاٹ رہے ہیں

دراصل تو ہیں خیمۂ جاں کی یہ طنابیں
کہنے کو تمناؤں کا سر کاٹ رہے ہیں

جانا ہے کہاں ، کون سی منزل ہے ہماری
معلوم نہیں اور سفر کاٹ رہے ہیں

جس دن سے ملاقات کو تم آئے ہو شاہد
ہم تیرے چلے جانے کا ڈر کاٹ رہے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر وہ خواب کی سیڑھی اترنے لگ جائے
زمین زاد فرشتوں سے لڑنے لگ جائے

کبھی فلک کی بلندی کو غور سے دیکھو
زمین پیروں تلے سے پھسلنے لگ جائے

تُو عشق زاد کی حالت پہ ہنسنے والا ہے
اگر یہ آگ ترے گھر میں لگنے لگ جائے

اگر وہ بننے سنورنے کا عزم کرتا ہے
یہ کائنات بھی ساری سنورنے لگ جائے

اگر وہ باغ میں آئے خرام کرنے کو
زمیں کی کوکھ ہرا رنگ اگلنے لگ جائے

اگر وہ حسن کی خیرات بانٹنے نکلے
ہماری آنکھ کا کاسہ چھلکنے لگ جائے

زمیں کی گردشِ لیل و نہار تھم جائے
اگر وہ ریشمی آنچل ڈھلکنے لگ جائے

Related posts

Leave a Comment